ایثار و قربانی میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بعد ان کا ہی درجہ تھا۔ ان کی جان نثاری و فداکاری اور خدمات اسلامی کی بنا پر ان کو بارگاہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں جو تقرب و اختصاص حاصل تھا وہ حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کے علاوہ کسی اور صحابی کو نہ تھا۔
مختصر حالات
آپ رضی اللہ عنہ کا خاندان زمانہ جاہلیت میں بھی ممتاز تھا‘ قریش کے نظام میں سفارت اور فصل مقدمات کا عہدہ آپ ہی کے خاندان میں تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اسلام سے قبل عرب کے مرغوب فنون میں (سپہ گری اور خطابت میں) بڑی دلچسپی تھی۔ معمولی نوشت و خواند سے بھی واقف تھے۔ معاش کا ذریعہ تجارت تھا۔ اسی سلسلہ میں دور دور کے سفر کرچکے تھے۔ ظہور اسلام کے وقت قریش کی طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی اسلام اور مسلمانوں کے سخت دشمن تھے۔ اسلام ان کی نگاہ میں سب سے بڑا جرم تھا۔ جو شخص نیا مسلمان ہوتا حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس کے دشمن ہوجاتے تھے لیکن بڑے عالی دماغ اور شکوہ و دبدبہ کے مالک تھے۔ اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے اسلام کی بڑی آرزو تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے اسلام کی دعا فرمایا کرتے تھے۔
ہجرت کے بعد بدر اور احد وغیرہ تمام بڑے بڑے معرکوں میں شریک رہے۔ جنگ بدر میں اپنے اعزہ کو اپنے ہاتھوں سے قتل کیا۔ غزوہ تبوک میں آدھا مال اللہ کی راہ میں دے دیا۔ غرض قبول اسلام کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی طرح انہوں نے بھی اپنی جان اور اپنا مال اسلام پر نثار کردیا اور ان کی جرات و شجاعت اور جانثاری سے اسلام کو بڑی تقویت پہنچی۔ ایثار و قربانی میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بعد ان کا ہی درجہ تھا۔ ان کی جان نثاری کی بنا پر ان کو بارگاہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں جو تقرب وخصوصیت حاصل تھی وہ حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کے علاوہ کسی اور صحابی کو نہ تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے کہ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر رضی اللہ عنہ ہوتے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اعمال خیر میں رغبت
ایک مرتبہ حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب سے دریافت کیا: ”آج جنازہ میں کس نے شرکت کی ہے؟“حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا میں آج جنازہ میں شریک ہوا ہوں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آج مریض کی تیمارداری کس نے کی ہے؟حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا آج میں نے مریض کی تیمارداری کی ہے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر استفسار کیا: آج صدقہ کس نے دیا ہے؟حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا آج میں نے صدقہ دیا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا آج روزہ کس نے رکھا ہے؟حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا آج میں نے روزہ رکھا ہے۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اعمال خیر کے اس شغف کو دیکھ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”عمر رضی اللہ عنہ کیلئے جنت واجب ہوگئی‘ عمر رضی اللہ عنہ کیلئے جنت واجب ہوگئی۔
ایک جن کا انوکھا واقعہ
ایک دن حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیٹھے ہوئے تھے کہ ان کے پاس سے ایک آدمی گزرا۔ کسی نے پوچھا اے امیر المومنین! کیا آپ اس گزرنے والے کو جانتے ہیں؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا یہ کون ہے؟ لوگوں نے کہا یہ حضرت سواد بن قارب رضی اللہ عنہ ہیں جنہیں ان کے پاس آنے والے جن نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی خبر دی تھی۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پیغام دے کر انہیں بلایا اور فرمایا کہ کیا آپ سواد بن قارب ہیں؟ انہوں نے ہاں میں جواب دیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کیا تم زمانہ جاہلیت میںکہانت کا کام کرتے تھے؟ اس پر حضرت سواد رضی اللہ عنہ کو غصہ آگیا اور کہا امیر المومنین! جب سے میں مسلمان ہوا ہوں کبھی کسی نے میرے منہ پر ایسی بات نہیں کی۔ حضر ت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا سبحان اللہ! ہم تو جاہلیت میں شرک پر تھے اور یہ شرک تمہاری کہانت سے زیادہ برا تھا۔ تمہارے تابع جن نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی جو خبر دی تھی وہ مجھے بتائو۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی فرمائش پر حضرت سواد رضی اللہ عنہ نے اپنا تفصیلی واقعہ سناتے ہوئے عرض کیا: اے امیر المومنین رضی اللہ عنہ ! ایک رات میں لیٹا ہوا تھا اور بیداری اور نیند کی درمیانی حالت میں تھا‘ میرا جن میرے پاس آیا اورمجھے پائوں مار کر کہا”اے سواد بن قارب! اٹھ اور میری بات غور سے سن! اگر تیرے اندر عقل ہے تو تو سمجھ لے کہ (قریش کی شاخ) لُوی بن غالب میں ایک رسول مبعوث ہوا ہے جو اللہ کی اور اس کی عبادت کی دعوت دیتا ہے۔
مجھے اس بات پر تعجب ہوا کہ جنات حق کو تلاش کررہے ہیں اور سفید اونٹوںپر کجاوے باندھ کر ہر طرف کا سفر کررہے ہیں‘ یہ سب ہدایت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ لہٰذا تم سفر کرکے اس ہستی کے پاس جائو جو بنی ہاشم میں چیدہ اورعمدہ ہیں اور ہدایت میں پہل کرنے والا دیر کرنے والے کی طرح نہیں ہوگا بلکہ اس سے افضل ہوگا۔
میں نے اس جن سے کہا مجھے سونے دو ‘مجھے شام سے بہت نیند آرہی ہے۔ اگلی رات وہ میرے پاس آیا اور اس نے مجھے پائوں مار کر پھر گزشتہ رات والی ساری بات بتائی۔ اسی طرح مسلسل تین راتیں وہ جن مجھے آکر بتاتا رہا۔
چنانچہ میں اٹھا اور میں نے کہا اللہ تعالیٰ نے میرے دل کو جانچ لیا ہے یعنی جن کی بات صحیح معلوم ہوتی ہے اور میں اونٹنی پر سوار ہوکر چل دیا پھر میںمدینہ آیا تو وہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم میں تشریف فرما تھے میں نے قریب جاکر عرض کیا میری درخواست بھی سن لیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”کہو“ میں نے یہ اشعار پڑھے۔ ترجمہ: ”ابتدائی رات کا کچھ حصہ گزر جانے کے بعد اور میرے کچھ سو لینے کے بعد مجھے سرگوشی کرنے والا جن میرے پاس تین رات آتا رہا اور جہاں تک میں نے اسے آزمایا وہ جھوٹا نہیں تھا وہ ہر رات مجھ سے یہی کہتا کہ تمہارے پاس ایک رسول صلی اللہ علیہ وسلم آیا ہے جو قبیلہ لوی بن غالب سے ہے۔ اس پر میں نے سفر کی مکمل تیاری کرلی اور تیز رفتار والی اونٹنی مجھے لے کر ہموار اور وسیع میدانوں میں چلتی رہی میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی چیز عبادت کے لائق نہیں ہے اور آپ ہر بات کے بارے میں قابل اعتماد ہیں اور اے قابل احترام اور پاکیزہ لوگوں کے بیٹے! آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تک پہنچنے کیلئے تمام رسولوں میں سب سے زیادہ قریبی وسیلہ ہیں۔ اے روئے زمین پر چلنے والے سب سے اچھے انسان! آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں ان تمام اعمال کا حکم فرمائیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اللہ کی طرف آرہے ہیں۔ ہم ان اعمال کو ضرور کریں گے چاہے ان اعمال کی محنت میں ہمارے بال سفید ہوجائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس دن کے لیے میرے سفارشی بن جائیں جس دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ اور سفارشی سواد بن قارب کے کام نہیں آسکتا۔“
میرے یہ اشعار سن کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام صحابی رضی اللہ عنہم اجمعین بہت زیادہ خوش ہوئے اور ان سب کے چہروں سے خوشی عیاں ہونے لگی۔
یہ قصہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت سواد رضی اللہ عنہ سے لپٹ گئے اور فرمایا”میری دلی خواہش تھی کہ میں تم سے یہ ساراقصہ سنوں۔کیا اب بھی وہ جن تمہارے پاس آتا ہے؟ حضرت سواد رضی اللہ عنہ نے فرمایا جب سے میں نے قرآن پڑھنا شروع کیا ہے وہ نہیں آیا اور اس جن کی جگہ اللہ کی کتاب نعم البدل ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں